امریکی دفتر خارجہ
دفتر برائے ترجمان
واشنگٹن، ڈی سی
5 اکتوبر، 2021
وزیر خارجہ بلنکن: سہ پہر بخیر اور آپ سبھی کا بہت شکریہ۔ میتھائس، مجھے یہ کہتے ہوئے اپنی بات شروع کرنی چاہیے کہ میں خود کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ میرا نام جارج مارشل کے ساتھ لیا جائے اور یہ بات سن کر میں سوچ رہا ہوں کہ ایلن اور روزی کیسا محسوس کرتے۔ آپ میں سے جن لوگوں کو ایلن اور روزی یاد نہیں ہیں ان کے لیے یہ خاص بات ہے۔ ان سامعین میں بیٹھے امریکیوں کے لیے یہ بات قابل قدر ہو سکتی ہے کہ یہ وہ ڈرامائی کھیل تھے جو ایڈ سلوین شو میں بیٹلز کی آمد سے کئی سال بعد ہوئے۔ (قہقہہ) لیکن اس کے باوجود میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
اور جناب سیکرٹری جنرل آپ کا، ہمارے تمام ساتھیوں اور خاص طور پر میرے بہت اچھے دوست وزیر یوئی یانگ، چنگ اور وزیر گریمیگنا، ہمیں آج اور اس وزارتی اجلاس میں اکٹھا کرنے کے لیے آپ کی بہت بڑی کاوشوں کا شکریہ۔
اجازت ہو تو میں جلدی سے اپنا ایک ذاتی تجربہ بیان کرتے ہوئے اپنی بات شروع کرنا چاہوں گا۔ او ای سی ڈی کے ساتھ میرا ایک خاص لگاؤ ہے۔ کئی سال پہلے میں ایک تحقیق کر رہا تھا جو بعد ازاں میرا کالج کا مقالہ بھی بنی۔ اس دوران میں یہاں او ای سی ڈی میں آیا تھا۔ میرا مقصد لائبریری کا دورہ کرنا اور بعض ماہرین سے بات چیت کرنا تھا۔ اس وقت میری مثال مٹھائیوں کی دکان میں بچے کی سی تھی کیونکہ یہاں ایسا بہت کچھ تھا جس سے مجھے اپنے کام میں مدد ملی۔ اس میں مطالعے کے غیرمعمولی مواقع اور بعض ماہرین تک رسائی شامل تھی۔ یہ مقالہ چند سال بعد کتابی صورت میں سامنے آیا جو بظاہر ابھی تک ایمازون پر دستیاب ہے۔ (قہقہہ) اس کا عنوان ‘اتحادی بمقابلہ اتحادی: امریکہ، یورپ اور سائبیریا پائپ لائن کا بحران’ ہے۔ میں اس قدر فہم اور بصیرت مہیا کرنے پر آج کئی سال بعد میں او ای سی ڈی کا مشکور ہوں۔
لیکن ہم یہاں ایک یاد گار دن اور یادگار موقع پر موجود ہیں جو کہ او ای سی ڈی کی ساٹھویں سالگرہ ہے۔ اس نے ہمیں یہ سوچنے کا موقع دیا ہے کہ اس تنظیم کے قیام کے بعد اب تک کون سی تبدیلیاں آ چکی ہیں اور اس کے ساتھ ہمیں اس بات پر غوروفکر کا موقع بھی میسر آیا ہے کہ کون سی چیزیں پہلے جیسی ہی ہیں۔
اس طرح یقیناً آج ہمیں سائبر میدان میں جن مسائل کا سامنا ہے اور موسمیاتی حوالے سے جو بحران درپیش ہے وہ اس ادارے اور دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کا نظام ترتیب دینے والوں کے لیے ناقابل تصور ہوتے۔ اس کے باوجود، میں کہوں گا کہ وہ مشترکہ اقدار جو کہ او ای سی ڈی کی بنیاد ہیں اور وہ وجوہات جن کی بنا پر دنیا کو اب بھی اس تنظیم کی ضرورت ہے ــ اب بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری معاشی ترقی کی بنیاد جمہوریت، قانون کی حکمرانی، انسانی حقوق اور منڈی کی کھلی اور شفاف معیشتوں پر استوار ہے۔
او ای سی ڈی کا رسوخ ہمیشہ وقت کے انتہائی اہم مسائل کو ان مشترکہ اصولوں کے ذریعے حل کرنے اور اس کام کے لیے دوسروں کو اپنے ساتھ لے کر چلنے میں پنہاں رہا ہے اور یہ بات آج بھی اتنی ہی درست ہے جتنی کہ ماضی میں تھی۔
اسی لیے میں آج ہمیں درپیش چار نمایاں مسائل اور انہیں حل کرنے میں او ای سی ڈی کے ممکنہ کردار پر اپنی توجہ مرکوز رکھنا چاہوں گا۔
اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ کووڈ۔19 کی وباء ان میں سب سے پہلا مسئلہ ہے۔ ہمارے تمام ممالک نے اس وباء میں تباہ کن نقصانات کا مشاہدہ کیا ہے جن میں سب سے پہلے 4.8 ملین بچوں، عورتوں اور مردوں کی اموات ہیں جن میں سے ہر ایک نے اپنے پیچھے سوگوار چھوڑے ہیں۔ اس کے بعد ہمارے لوگوں نے معاشی بحران کی صورت میں دوسرا دھچکا سہا ہے۔
او ای سی ڈی نے ہمیں اس بحران کے معاشی اثرات بارے پیش بینی کے لیے اہم معلومات اور وباء کے بعد بہتر طور سے بحالی کے لیے شہادتوں کی بنیاد پر اپنی حکمت عملی کو بہتر بنانے میں مدد دی ہے۔ او ای سی ڈی ان پہلی تنظیموں میں سے ایک تھی جنہوں نے دنیا کے ممالک پر ویکسین کی پیشگی خریدار پر زور دیا جس سے کمپنیوں کو اپنی پیداوار بڑھانے میں مدد ملی۔ ہم نے کم اور متوسط آمدنی والے ممالک کو کوویکس پروگرام کے ذریعے محفوظ و موثر ویکسین تک رسائی دینے کے لیے اسی طریقہ کار سے کام لیا۔ اس سے ہمیں اپنا وہ وعدہ پورا کرنے میں مدد ملے گی جو ہم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دوران صدر بائیڈن کی جانب سے بلائی گئی حالیہ کانفرنس میں کیا تھا۔ اس وعدے کے مطابق ہم نے 2022 تک ہر ملک میں اور آمدنی کے ہر درجے میں آنے والی دنیا کی کم از کم 70 فیصد آبادی کو مکمل ویکسین لگانا ہے۔
موسمیاتی بحران دوسرا بڑا مسئلہ ہے۔
ہر رکن ملک کو شدید موسمی اثرات کا سامنا ہے جو فی الواقع زراعت سے بنیادی ڈھانچے تک اور صحت عامہ سے تحفظِ خوراک تک ہماری معیشتوں اور ہماری زندگیوں کے ہر پہلو کو منفی طور سے متاثر کر رہے ہیں۔
اس کے سنگین نتائج کو روکنے کے لے ہمیں خود کو مضبوط بنانے اور ناگزیر موسمی حالات کے مطابق ڈھالنے کے لیے فوری اور دلیرانہ اقدامات کے ساتھ ساتھ دنیا میں گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج نیٹ زیرو سطح پر لانے کے لیے پہلے سے بڑھ کر عجلت کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ یہ ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے اور سی او پی 26 کے لیے ہماری توجہ اسی پر مرکوز ہے جس کے آغاز میں اب چند ہفتے باقی رہ گئے ہیں۔
او ای سی ڈی میں شامل ممالک مجموعی طور پر دنیا بھر خارج ہونے والی کاربن کے 28 فیصد کے ذمہ دار ہیں۔ دنیا کے جی ڈی پی میں ہمارا حصہ 60 فیصد ہے۔ ہم جو اقدامات اٹھائیں گے اس کا عالمی حدت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیئس کی حد میں رکھنے کے ہدف کی تکمیل کی ہماری اہلیت پر بہت بڑا اثر پڑے گا۔
ہمارے رکن ممالک کو ایسا طرزعمل اپنانا ہے جس کی ہم دوسروں سے توقع رکھتے ہیں۔ اس کا مطلب کاربن کے اخراج میں کمی لانے کے لیے پُرعزم اور قومی سطح پر متعین کردار اختیار کرنا اور خود کو موسمیاتی اثرات کا مقابلہ کرنےکے قابل بنانے کے لیے سرمایہ کاری کرنا، کوئلے کے استعمال سے خارج ہونے ہونے والی کاربن کو روکنے کے لیے فوری اقدامات اٹھانا، اندرون و بیرون ملک کوئلے کی صنعت پر سرمایہ کاری اور رکازی ایندھن پر دی جانے والی امدادی قیمتوں کا بتدریج خاتمہ کرنا ہے۔
او ای سی ڈی کا ‘ڈیجیٹل کلائمیٹ ٹریکر’ ہمیں اپنے طے کردہ اہداف کی جانب تمام ممالک کی پیش رفت کا کھلے طور پر جائزہ لینے اور اس طرح ہمیں اپنے وعدے پورے کرنے میں مدد دے گا۔
ہمیں بنیادی ڈھانچے پر سرمایہ کاری کے لیے اعلیٰ معیارات بھی اپنانا ہیں جو معاشی نموپذیری، شفافیت اور جامعیت کے ساتھ ماحولیاتی و سماجی استحکام کو بہتر بناتے ہیں۔ اس کا مطلب بندرگاہیں، ہوائی اڈے، سڑکیں، بجلی کے گرڈ تعمیر کرنا، انٹرنیٹ تک رسائی اور اہم نوعیت کا دیگر بنیادی ڈھانچہ کھڑا کرنا اور اسے اس انداز میں بہتر بنانا ہے جس سے کاربن کے اخراج میں نمایاں کمی آئے اور موسمیاتی تبدیلی کے مقابل ہمیں خود کو یقینی طور پر مضبوط بنانے میں مدد ملے۔
ہم نے آج کچھ دیر پہلے جس چیز پر بات کی ہے اس کے پیچھے یہی تصور ہے۔ یہ ‘بلیو ڈاٹ نیٹ ورک’ ہے جو امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا کی جانب سے او ای سی ڈی اور کثیرملکی ترقیاتی کے ذریعے بنائے گئے موجودہ معیارات کی بنیاد پر بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کی تصدیق کا نام ہے جس میں دیگر ادارے بھی شامل ہیں۔ او ای سی ڈی ٹرسٹ ان بزنس کی ٹیم اور او ای سی ڈی کی مدد سے منظم ہونے والا کاروبار، سول سوسائٹی اور ماہرین علم کے 160 سے زیادہ نمائندوں پر مشتمل ایگزیکٹو کنسلٹیشن گروپ پہلے ہی اُن طریقہ ہائے کار کو مضبوط بنانے میں مصروف ہے جنہیں بلیو ڈاٹ نیٹک ورک نے استعمال کرنا ہے۔
او ای سی ڈی کے اندازے کے مطابق عالمی حدت میں اضافے کو 2 ڈگری سیلسیئس کی حد میں رکھنے کے لیے بنیادی ڈھانچے کی مد میں سالانہ 6.9 ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری درکار ہو گی۔ اگرچہ یہ وہ ہدف ہے جسے ہم خاطرخواہ حد تک پُرعزم نہیں سمجھتے لیکن اس معاملے میں ہم مستقبل کی راہ پر او ای سی ڈی کے ساتھ اشتراک کے وسیع مواقع دیکھتے ہیں۔
بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں سرمایہ کاری اس بات کی صرف ایک مثال ہے کہ ہمارے ممالک نے اس بحران کو روکنے کے لیے کس طرح فوری اور دلیرانہ کارروائی کرنا ہے جو معاشی ترقی کی رفتار تیز کرنے اور اچھی اجرت والی نوکریاں تخلیق کرنے کے لیے ایسا موقع پیش کرتا ہے جو کبھی کبھار ہی آتا ہے۔
تاہم اگر ماحول دوست معیشت کی جانب منتقلی سے نوکریوں میں مجموعی طور پر اضافہ ہو بھی جائے جس کے بارے میں ہمارا یقین ہے کہ ایسا ہو گا تو تب بھی ان تمام کارکنوں کو نوکریاں نہیں ملیں گی جنہوں نے اپنا روزگار کھو دیا ہے، سبھی کو ساتھ لے کر چلنا ہماری ذمہ داری میں شامل ہے۔
یہ بات مجھے تیسرے مسئلے یعنی ‘ناانصافی’ کی جانب لے جاتی ہے۔ اس بارے میںاعدادوشمار بالکل واضح ہیں: وباء اور موسمیاتی بحران ہمارے معاشرے میں پسماندہ آبادی کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔ ہم امریکہ میں اس کا مشاہدہ کرتے ہیں جہاں اقلیتی سماجی گروہوں میں کووڈ۔19 کے باعث ہونے والی اموات کی شرح بلند ترین ہے اور انہیں موسمیاتی تبدیلی کے تیزتر اثرات سے بھی دوسروں کی نسبت کہیں زیادہ نقصان پہنچا ہے۔
ہم سب پر اس کی کچھ نہ کچھ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ کئی دہائیوں تک ہمارے رکن ممالک نے معاشی ترقی کو زیادہ تر بڑھتے ہوئے جی ڈی پی اور ترقی پاتی سٹاک مارکیٹ کی صورت میں ماپا ہے جو کہ ہزاروں محنت کش خاندانوں کی حقیقی صورتحال کی عکاسی نہیں کرتے۔ اس کے بجائے بے مثل ترقی اکثر بڑھتی ہوئی عدم مساوات بھی ساتھ لاتی ہے۔ ہمارے تمام ممالک اور دنیا بھر میں لوگ بھرپور ترقی اور بھرپور مساوات کے خواہاں ہیں۔ او ای سی ڈی اس ترقی اور مساوات کو ممکن بنانے میں مدد دے سکتی ہے۔
اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ کاروبار پر کم از کم ٹیکس کی شرح کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں میں اضافہ کیا جائے جس پر میتھائس نے بھی بات کی ہے۔ اس سے ہمیں اس دوڑ سے بچنے میں مدد ملے گی جس میں ہمارے ممالک نے اپنے کاروباری ٹیکس کی شرح میں کمی کی تو جواباً دوسروں نے بھی ایسا ہی کیا اور سالہا سال تک جاری اس دوڑ میں کسی ملک کو فتح نہیں ملی۔ اس کے بجائے ٹیکس کی کم شرح نئے کارباروں کو راغب کرنے میں ناکام رہی، نتیجتاً کارکن اور کاروبار باہم منصفانہ مسابقت سے محروم ہو گئے۔ مزید یہ کہ اس طریقہ کار نے کمپنیوں کے لیے اپنا منصفانہ حصہ ادا کرنے سے بچنے کو آسان بنا دیا۔ او ای سی ڈی کا اندازہ ہے کہ کاروباری ٹیکس سے بچنے کے نتیجے میں ہر سال مجموعی طور پر 100 سے 240 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ یہ وہ مالی وسائل ہیں جنہیں ہم دوبارہ اپنے لوگوں کی تعلیم، صحت اور ماحول دوست بنیادی ڈھانچے کی تعمیر پر خرچ کر سکتے ہیں۔
ٹیکس عائد کرنے کے حوالے سے ایک مشترکہ طریقہ کار سے یہ دوڑ ختم کرنے، تمام ممالک کو یکساں کاروباری مواقع کی فراہمی اور بین الاقوامی ٹیکس نظام کو مستحکم بنانے میں مدد ملے گی۔ اس سے دنیا کے ممالک کے مابین مساوات کو بہتر بنایا جا سکے گا، ترقی پذیر ممالک کے لیے ٹیکس جمع کرنا اور ترقیاتی ترجیحات کے لیے مالی وسائل مختص کرنا کہیں زیادہ آسان ہو جائے گا۔ ہم نے یہ کام کرنا ہے، ہم نے یہ سب کچھ باہم مِل جُل کر کرنا ہے۔
او ای سی ڈی ہمیں یہ بھی دکھا سکتی ہے کہ بڑھتی ہوئی عدم مساوات سے ہم سب کو کیسے خطرہ لاحق ہے۔ امریکہ معلومات اور اعدادوشمار جمع کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے کے لیے اس ادارے کی کی صلاحیت میں وسعت لانے کی غرض سے بہت سے اقدامات پر مالی وسائل خرچ کر رہا ہے۔ یہ وہ معلومات اور اعدادوشمار ہیں جو یہ اندازہ لگانے میں مدد دیتے ہیں کہ ہم امتیاز اور تفرق کی کتنی بڑی قیمت ادا کر رہے ہیں۔
مثال کے طور پر ہم اپنے ممالک کی جانب سے ایل جی بی ٹی کیو آئی افراد کی سماجی و معاشی سرگرمیوں میں شمولیت بڑھانے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کے ممکنہ معاشی و سماجی فوائد پر او ای سی ڈی کی تحقیق کے لیے مالی وسائل کی فراہمی میں مدد دے رہے ہیں۔ ہم نسلی اور صنفی معلومات کو جمع کرنے اور ان کے تجزیے کے لیے او ای سی ڈی کی صلاحیت میں اضافے پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ اس سے او ای سی ڈی کی اس اہم تحقیق کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی جس سے خواتین کو معاشی طور پر بااختیار بنانے سے حاصل ہونے والے وسیع تر معاشی فوائد کا اظہار ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر گزشتہ 40 سے 50 سال کے دوران ڈنمارک، آئس لینڈ، ناروے اور سویڈن میں خواتین کی ملازمتوں میں اضافے سے فی کس اوسط سالانہ جی ڈی پی میں 10 سے 20 فیصد اضافہ ہوا۔
یہ اعتراف ان تمام کوششوں میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے کہ ہمارے ممالک کی حقیقی دولت ہمارے قدرتی وسائل، ہماری افواج کی قوت، ہمارے جغرافیے کی وسعت اور ہمارے قدرتی وسائل کی فراوانی نہیں بلکہ ہمارے لیے حقیقی دولت کا حصول ہمارے لوگوں اور ان کے صلاحیت کو بھرپور انداز میں سامنے لانے سے وابستہ ہے۔
آخری بات یہ کہ ہمیں نئی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی کے لیے قوانین وضع کرنے کا مسئلہ درپیش ہے، ہمیں یہ یقینی بنانا ہے کہ ٹیکنالوجی میں ہونے والی ترقی سے لوگوں کی حالت بہتر بنانے اور انسانی آزادی کے فروغ میں مدد ملے اور یہ ٹیکنالوجی مخالف آوازوں کو دبانے، عدم مساوات کو مزید بڑھانے یا اقلیتیوں کو ہدف بنانے کے لیے استعمال نہ ہو۔ مثال کے طور پر ہم نے دیکھاہے کہ امریکہ میں پولیس کی کارروائیوں سے جیل کی سزاؤں اور پیرول تک ہر معاملے میں پیش بینی پر مبنی تخمینے سیاہ فام لوگوں کے خلاف تعصب کو بڑھاوا دے سکتے ہیں۔
ہم مِل ُجل کر یہ یقینی بنا سکتے ہیں کہ ہماری اقدار اور مفادات سے نئے ڈیجیٹل قوانین وضع کرنے میں مدد ملے۔
مصنوعی ذہانت کے میدان پر ہی غور کیجیے۔ 2019 میں مصنوعی ذہانت کے حوالے سے او ای سی ڈی کے اصولوں کے لے ہماری مشترکہ حمایت اور 2020 میں مصنوعی ذہانت کے حوالے سے عالمگیر شراکت شروع کرنے سے دنیا کو اس حوالے سے ایک بنیاد میسر آئی۔ او ای سی ڈی کے یہ اصول اس معاملے میں بین الاقوامی اصولوں کا پہلا مجموعہ ہیں۔
گزشتہ ہفتے ہی میں نے سیکرٹری جنرل ـــ معاف کیجیے، امریکہ کی وزیر تجارت جینا ریمونڈو اور ہماری تجارتی نمائندی کیتھرائن تائی، جو یہاں پیرس میں بھی موجود ہیں اور پِٹس برگ میں یورپی یونین کے نمائندے سے ملاقات کی جو امریکہ- یورپی یونین تجارتی و ٹیکنالوجی کونسل کی پہلی ملاقات تھی۔
ہم نے مصنوعی ذہانت کے اصولوں کی بابت پہلے مشترکہ اعلامیے کی منظوری دی جس کی بنیاد او ای سی ڈی کی 2019 میں پیش کردہ سفارشات پر ہے اور یہ اقدام ایسی قابل اعتماد مصنوعی ذہانت کی اہمیت کو نمایاں کرتا ہے جس میں انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کا احترام ہو۔ چند ہی روز پہلے امریکہ، آسٹریلیا، جاپان اور انڈیا پر مشتمل کواڈ ممالک کے گروہ نے ٹیکنالوجی کی تیاری، ترقی اور اس کے استعمال میں انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کو باہم یکجا کرنے کا عزم کیا۔
ان رکن ممالک کے ساتھ جاری ہماری بات چیت نے ٹیکنالوجی سے متعلق ایسے دیگر مسائل کو بھی نمایاں کیا ہے جنہیں ہم نے اسی انداز میں حل کرنا ہے اور ان میں سائبر سکیورٹی، ڈیجیٹل اثاثوں اور تجارتی ترسیلات کے نظام کی سلامتی سے وابستہ مسائل بھی شامل ہیں۔ ہم یہ جاننے کے لیے اپنے ساتھی جمہوری ممالک کے ساتھ مشاورت کے متمنی ہیں کہ او ای سی ڈی ان معاملات میں اصول و ضوابط وضع کرنے میں کیسے اپنا رہنما کردار ادا کر سکتی ہے۔
او ای سی ڈی کے قیام سے ساٹھ سال بعد ہم خود کو ایک اہم موڑ پر دیکھتے ہیں۔
اس تنظیم اور ہماری جمہوریتوں کے بنیادی اصولوں کو آمرانہ حکومتوں سے خطرہ درپیش ہے جن کا کہنا ہے کہ لوگوں کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کے معاملے میں ان کا پیش کردہ نمونہ ہی بہتر ہے۔ ایسی بعض حکومتیں قوانین کی بنیاد پر قائم نظام کو فعال طور سے کمزور بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ نظام ہماری آنے والی نسلوں کی سلامتی اور خوشحالی میں بنیادی کردار کا حامل ہے۔
اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہمیں بہت سا کام کرنا ہے۔
اسی لیے او ای سی ڈی کا کام آج جتنا اہم ہے اتنا پہلے کبھی نہ تھا۔ ہمیں ثابت کرنا ہے کہ ہمارا طریقہ کار ناصرف اپنے ممالک میں بلکہ پوری دنیا میں لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لا سکتا ہے۔ یہ بہتری ماضی کی نسبت کہیں زیادہ منصفانہ ہو گی۔
آئیے اپنے جمہوری نمونے میں کھلے پن کے بنیادی فائدے پر نظر ڈالیں۔ یہ ہمارے شہریوں کو یہ جانچنے میں مدد دیتا ہے کہ ہم کہاں کامیاب ہیں اور کہاں ہمیں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ہمیں ایک دوسرے سے سیکھنے اور خود کو جواب دہ بنانے اور بہتر کارکردگی دکھانے کے قابل بناتا ہے۔
او ای سی ڈی خاص طور پر اپنی کڑی اور معروضی تحقیق کے ذریعے بہتر زندگیوں کے لیے بہتر پالیسیوں کی نشاندہی کر کے یہ بتاتی ہے کہ ہم کیسے بہتر کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔
1947 میں جب صر ٹرومین مارشل پلان کے بارے میں بات کرنے کے امریکہ کی کانگریس کے روبرو گئے تو انہوں نے انہی دنوں میں تخلیق کردہ او ای ای سی ـــ جو کہ او ای سی ڈی کی پیشرو تنظیم تھی ـــ کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ ساتھی جمہوری ممالک کے ساتھ مضبوط رشتے استوار کرنا کیوں امریکہ کے مفاد میں ہے۔ انہوں نے اس موقع پر جو بات کی وہ میں ہو بہو دہراتا ہوں:
”جب متنوع لوگوں، تواریخ اور دساتیر کے حامل 16 خودمختار ممالک باہم قریبی معاشی تعلقات کے قیام اور تنگ نظر قوم پرستی پر مبنی تباہ کن اقدامات سے کنارہ کشی کے لیے مشترکہ ارادہ کرتے ہیں تو بحالی کی راہ میں حائل رکاوٹیں زیادہ مہیب دکھائی نہیں دیتیں۔”
اب ہم 38 ممالک پر مشتمل تنظیم بن چکے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ان رکاوٹوں پر قابو پانے کی ہماری مشترکہ اہلیت بھی پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔ امریکہ اس تنظیم کو مزید مضبوط ہوتا دیکھنے کا عزم رکھتا ہے۔ ہم مستقبل کی راہ پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے اپنے ساتھی ممالک کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں تاکہ اس تنظیم میں شمولیت کے خواہش مند دیگر ممالک جو ہمارے جیسی اقدار کے مالک ہیں اور او ای سی ڈی کے اعلیٰ معیارات کو پہنچتے ہیں، وہ بھی اس تنظیم کا حصہ بن سکیں۔
ہمیں درپیش مسائل خواہ کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں، جب ہم ان کا اکٹھے سامنا کرتے ہیں تو یہ زیادہ خوفناک دکھائی نہیں دیتے۔ ان میں ہر مسئلہ ہمیں اپنے لوگوں کو فائدہ پہنچانے، ہماری باہم پیوسط صحت عامہ میں بہتری لانے، نئی اور اچھی اجرتوں والی نوکریاں تخلیق کرتے ہوئے اپنی پُرشکوہ زمین کو قائم رکھنے، اپنی معیشتوں کو ترقی دے کر انہیں تمام لوگوں کی زندگی بہتر بنانے کے قابل کرنے اور نئی ٹیکنالوجی سے ایسے انداز میں کام لینے کا موقع پیش کرتا ہے جس سے انسانی ترقی اور انسانی حقوق کو فروغ ملے۔
اگر ہم گزشتہ 60 سال سے رہنمائی کرتی اپنی مشترکہ اقدار سے وابستہ رہتے ہوئے بہتر پالیسیاں ڈھونڈنے کے لیے اکٹھے کام کرنا جاری رکھتے ہیں تو پھر ہم ترقی کا ہر ہدف حاصل کر سکتے ہیں۔
آپ کا بہت شکریہ۔ (تالیاں)
اصل عبارت پڑھنے کا لنک: https://www.state.gov/secretary-antony-j-blinken-at-oecd-opening-and-keynote-address/
یہ ترجمہ ازراہ نوازش فراہم کیا جا رہا ہے اور صرف اصل انگریزی ماخذ کو ہی مستند سمجھا جائے۔